میاں کرپٹ شریف

میرے بہترین دوست نے مجھے ایک خوبصورت واقعہ سنایا جو سُن کر میں تو اب تک حیران ہوں، آپ بھی جانئے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ بہت عرصے سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف انہیں ملاقات کے لیے بلا رہے تھے، لیکن مصروفیات کی وجہ سے جناب اُن سے ملنے جا نہیں سکے۔ پھر ایک دن صبح وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچ ہی گئے۔ انہوں نے دیکھا اس ملک کا وزیراعظم خود اپنا ناشتہ تیار کررہا ہے۔ میاں صاحب نے دو انڈے ُابالے اور چائے بھی بنائی۔ پھر ہم دونوں نے اکھٹے صبح کا ناشتا انڈے اور ڈبل روٹی کے دو سلائس کے ساتھ کیا۔ ابھی میں اس تبدیلی کی وجہ پوچھنے ہی والا تھا کہ میاں صاحب اٹُھے اور اپنے آفس میں تشریف لے گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ میاں صاحب کو ان کے پرسنل اسٹاف آفیسر نے بتایا کہ کچھ وزراء اور اراکین ِ قومی اسمبلی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے آئے ہیں لیکن سیکیورٹی چیک کے باعث انہیں اندر آنے میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وزیرِ ریلوے، وزیرِ پانی وبجلی، وزیرِ اطلاعات و نشریات اور دیگر افراد اندر آفس میں آئے تو ان کی جانب سے پہلا شکوہ ہی سکیورٹی کے باعث پیش آنے والی پریشانی کا تھا۔ میاں صاحب نے یہ سنتے ہی سکیورٹی آفیسر کو فون کیا اور کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے سکیورٹی اہلکاروں کو واپس اپنے محکموں میں بھیج دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ میری نہیں بلکہ وہ عوام کی خدمت کریں۔
یہ سب دیکھ کر مجھ سمیت ہر کوئی ہکا بکا ہی رہ گیا۔ پھر وزراء نے میاں صاحب کو مختلف فائلیں تھمانا شروع کردیں۔ کسی کو اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے زمین درکار تھی تو کوئی پسندیدہ افراد کو ٹھیکے دینے کا خواہشمند تھا۔ وزیر اعظم خاموشی سے سب کی سنتے رہے۔ جب سب نے اپنی اپنی خواہشات کا اظہار کرلیا تو وزیراعظم نے اپنے پرسنل اسٹاف آفیسر کو بلایا اور حکم دیا کہ ساری فائلیں لے جا کر جلا دی جائیں۔ یہ سن کر وزراء کی سٹی گم ہوگئی اور سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ایک منٹ کے وقفے کے بعد میاں صاحب نے تاریخی جملے ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس آپ سمیت پوری قوم کے لیے کُھلا ہے لیکن آپ لوگ جب بھی یہاں تشریف لائیں تو ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی منظوری کے لیے آئیں۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ سب لوگ جاسکتے ہیں۔
یہ مناظر دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اور میں اپنی قوم کے فیصلے پر رشک کرنے لگا۔ ابھی میں خیالوں میں ہی گم تھا کہ میاں صاحب نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو فون گھمایا اور جو انھوں نے چھوٹے میاں صاحب سے کہا وہ سنہری الفاظ تھے۔
’’شہباز بس بہت ہوگیا مرغی، دودھ، انڈے اور اپنی ہی فیکٹری کا لوہا بیچنا چھوڑ دو۔ اگر6 ماہ میں میرے صوبے کے عوام کومفت صحت، تعلیم اورفوری انصاف  فراہم نہیں کرسکتے تو اپنا نام واقعی تبدیل کرلو۔ اب کسی بھی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
میرے دوست نے مجھے بتایا، میاں صاحب نے عوام سے براہ راست رابطے کے لیے ایک ٹیلی فون لائن مختص کر رکھی تھی جس پر کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میاں صاحب کال سنتے رہے اور فوری مسائل حل کرتے گئے۔ شام تک آدھا پاکستان خوشحال ہوچکا تھا۔ اس دوران میاں صاحب اتنے مصروف رہے کہ میرے دل میں اٹھنے والے ہزاروں سوال میں سے میں ایک بھی نہ کرسکا۔ شام ڈھلے ایک فون آیا دوسری طرف زرداری صاحب تھے میں یہ تو نہ سن سکا کہ زرداری صاحب نے میاں صاحب سے کیا کہا، لیکن میں میاں صاحب کے چہرے کے تاثرات سے سمجھ گیا کہ دوسری جانب سے تند و تیز جملے ادا کیے گئے تھے۔ میاں صاحب کچھ پریشان ہوئے اور سوچنے لگے، میں کوئی سوال کرنے کا سوچ ہی رہا تھا  کہ فوراً انہوں نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ آرمی چیف کو فون لگائیں پھر میاں صاحب نے جو کہا میں تو خوشی سے نہال ہی ہوگیا۔ ان کے الفاظ تھے کہ،
’’راحیل شریف صاحب! آپ کو اپنے شہیدوں کا واسطہ اس قوم کو بھتہ خوروں، ، دہشت گردوں، قاتلوں، بھتہ خوروں اور کرپٹ عناصر سے آزادی دلوا دیں۔ جو کوئی بھی راستے میں آئے چاہے وہ میں ہی کیوں نہ ہوں اسے عبرت کا نشان بنا دیں‘‘
اس کے بعد میاں صاحب نے عمران خان کو فون کیا اور کہا کہ، آؤ مل کر اس مُلک کی خدمت کریں سارا کریڈٹ تم لے لو، لیکن اس مُلک کو واقعی اسلام کا قلعہ بناتے ہیں۔ اس کے بعد میں نیند سے جاگا اِدھر اُدھر دیکھا نہ میرا کوئی دوست تھا اور نہ وہ ’’خوشحال پاکستان‘‘ ،
ٹی وی لگایا تو دیکھا میاں صاحب اپنے عالی شان پروٹوکول کے ساتھ بادشاہوں کی طرح  امریکه روانہ ہورہے تھے

Comments