اسلام پور جہاں کوئی شخص بیروزگار نہیں
پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں اسلام پور ضلع سوات کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں سولہ سترہ ہزار کی آبادی میں ایک بھی شخص بے روزگار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں اسلام پور اپنے ہنرمند باسیوں کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک کے سرد ترین خطوں میں ایک ایسے گاؤں کے طور پر پہچانا جاتا ہے جہاں بھیڑ بکریوں کے اون سے رنگ برنگی گرم اعلیٰ کوالٹی کی چادریں اور شالیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہاں سیزن میں ماہانہ تقریباً تین ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
اسلام پور گاؤں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہاں بدھ مت کے آثار جابجا بکھرے پڑے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوگئے۔ اس کے علاوہ اسلام پور کو یہاں کے ایک مذہبی پیشوا میاں نور بابا جی کی وجہ سے بھی کافی شہرت حاصل ہے۔ میاں نور بابا جی کے دادا اخون درویزہ بابا 940 ہجری میں اسلام پور آئے تھے۔ 970 ہجری میں ان کے ہاں اخون کریم داد کے نام سے بیٹا پیدا ہوا۔ میاں نور بابا جی اخون کریم داد کی اولاد میں سے ہیں۔ اخون درویزہ 1040 ہجری میں وفات پا گئے۔ میاں نور بابا جی کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ مذہبی علم کے حصول کے لیے ہندوستان گئے تھے اور جہاں سے علم حاصل کیا تھا، اس علاقے کا نام ’’اسلامپور‘‘ تھا۔ علم مکمل کرنے کے بعد واپسی پر آکر انہوں نے اپنے گاؤں کا نام ’’اسلامپور‘‘ رکھ دیا۔
لیکن یہاں اسلام پور کے ساتھ ساتھ اس گاؤں کو ’’سلامپور‘‘ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک الگ روایت مشہور ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ گاؤں کے فلک بوس پہاڑوں میں سے ایک ضلع سوات اور ضلع بونیر کی سرحد کا کردار بھی ادا کرتا ہے، تو اسی وجہ سے مشہور ہے کہ جب بھی کوئی بونیر سے سوات آتا تھا یا سوات سے کوئی بونیر جاتا تھا، تو مقامی لوگ دست بستہ کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والے کو سلام کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے علاقے کا نام ’’سلامپور‘‘ پڑ گیا۔ گاؤں میں لبِ سڑک پر قائم اسکول چونکہ گورنمنٹ اسلام پور ہائی اسکول ہے اور اس کے علاوہ اسلام پور تک جانے والی سڑک پر نصب ایک بورڈ پر اسلامپور لکھا گیا ہے، اس وجہ سے زیادہ ترجیح اسی نام کو دی جاتی ہے۔
اسلام پور گاؤں.
مشین پر اُونی تار بن رہا ہے۔
ایک ہنر مند مشین کی مدد سے دھاگے بھر رہا ہے۔
اسلام پور آج کل پوری دنیا میں سرد موسم کے حامل خطوں میں اپنے ہنر مندوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں تیار ہونے والی چادریں، گرم شال، پکول (اون سے بنی روایتی ٹوپی) اور واسکٹ نہ صرف اندرون ملک بلکہ افغانستان، روس، یورپی ممالک اور دنیا کے ہر اس خطے میں بھیجی جاتی ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی رہتا ہے۔
سنہ 1998ء میں گاؤں کی مردم شماری کی گئی تھی جس کی روشنی میں مضافات کو ملا کر اسلام پور کی آبادی 536 گھرانوں پر مشتمل تھی۔ آج محض 17 سال گزرنے کے بعد یہاں پر 1700 تک گھرانے آباد ہیں جن کی کل آبادی 16 سے 17 ہزار بنتی ہے۔ آبادی کا 70 فی صد حصہ کھڈے کے کام سے وابستہ ہے، باقی ماندہ 30 فیصد میں بیشتر محکمۂ پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں برسر روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں زراعت سے بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد وابستہ ہے۔
پورے گاؤں میں ساڑھے چار پانچ ہزار کھڈے ہیں (’’کھڈا‘‘ زمین میں کھودا گیا وہ مخصوص قطعہ زمین ہے جہاں بیٹھ کر ہنر مند روایتی مشینوں سے چادر تیار کرتے ہیں)۔ ہر کھڈے پر 3 سے 6 تک چادریں یا شالیں روزانہ کی بنیاد پر تیار ہوتی ہیں۔ اس حساب سے کہا جاسکتا ہے کہ گاؤں اسلام پور میں روزانہ پندرہ تا سولہ ہزار مختلف کوالٹی کی چادریں اور شالیں تیار ہوتی ہیں۔ ایک چادر یا شال کی قیمت 500 سے لے کر 40 ہزار روپے تک ہے اور یہ نرخ معمول کے مطابق ہیں۔
یہاں آرڈر پر تیار ہونے والی چادروں کی قیمت بسا اوقات 1 لاکھ روپے سے بھی متجاوز ہوتی ہے۔ اسی حساب سے گاؤں اسلام پور میں کم از کم 8 کروڑ روپے روزانہ کا کاروبار ہوتا ہے اور ماہانہ دو ارب ستر کروڑ کی حد عبور کرتا ہے۔ کھڈے سے وابستہ لوگوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد بنتی ہے جن میں اسلام پور گاؤں، مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں کے دکان دار، خام مال لانے، تیار کرنے والے اور تیار مال واپس چھوٹی بڑی منڈیوں تک پہنچانے والے شامل ہیں۔ بالفاظ دیگر اسلام پور گاؤں کے ساتھ ضلع سوات کے 50 ہزار خاندانوں کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ بے کار ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، بے کاروں کے علاوہ اسلام پور میں اتنا کام ہے کہ یہاں کوئی بھی شخص بے روزگار نہیں ہے۔‘
پرانے طرز کا کھڈا۔
نئے طرز کا کھڈا۔
زمین کے اوپر نصب کی گئی روایتی مشین جسے گاؤں والے کھڈا ہی پکارتے ہیں۔
گاؤں میں دو قسم کے کھڈے ہیں۔ ایک تو روایتی کھڈے ہیں جن کے لیے باقاعدہ طور پر زمین کھودی جاتی ہے جبکہ دوسری قسم میں زمین کے اوپر مشین نصب کی جاتی ہے۔
Comments
Post a Comment