پانامہ لیکس
آج سے ایک سال قبل ایک نامعلوم شخص نے جرمنی کے سب سے بڑے اخبار زیدوئچے سائتونگ سے رابطہ کیا اور اخبار کو موساک فونسیکا کی اندرونی دستاویزات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔
اخبار نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور آنے والے مہینوں میں اس نامعلوم ذریعے کی جانب سے بھجوائی جانے والی دستاویزات کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اس سارے ڈیٹا کا حجم 2.6 ٹیرا بائیٹ تک پہنچ گیا۔
یہ سب کچھ فراہم کرنے والے ذریعے نے اس کے بدلے میں کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ سکیورٹی کے بارے میں چند یقین دہانیاں مانگیں۔
زیدوئچے سائتونگ نے سارے ڈیٹا کا جائزہ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس یا ICIJ کی مدد سے لینے کا فیصلہ کیا جو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کر چکا تھا۔
پاناما پیپرز عالمی سطح پر اس نوعیت کے تعاون کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔
ان پیپرز کے لیے کی گئی تحقیقات میں گذشتہ 12 مہینے کے دوران 100 میڈیا تنظیموں سے اور 80 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 400 کے قریب صحافیوں نے حصہ لیا۔
ان میں بی بی سی کی ٹیم، برطانوی اخبار گارڈین، فرانسیسی اخبار لا موند، ارجنٹائن کے اخبار لا نیسیون شامل ہیں۔
اس تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کا پہلا اجلاس واشنگٹن، میونخ، لندن اور للہیمر میں ہوا جس میں تحقیق کے دائرۂ کار کا تعین کیا گیا۔
پاناما پیپرز کے ڈیٹا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ وکی لیکس کی سفارتی کیبلز، آف شور لیکس، لکس لیکس، سوئس لیکس کے سارے ڈیٹا سے زیادہ ہے جس میں ای میلز، پی ڈی ایف فائلیں، تصاویر اور موساک فونسیکا کے اندرونی ڈیٹا بیس کا حصہ بھی شامل ہے جو 1970 سے 2016 تک پھیلا ہوا ہے۔
دو سال قبل ایک اور ذریعے نے موساک فونسیکا کا ڈیٹا فروخت کیا تھا مگر وہ حجم میں بہت چھوٹا تھا مگر پاناما پیپرز کے ذریعے افشا کی جانے والی دستاویزات میں 214000 کمپنیوں کے بارے میں معلومات تھیں۔
ان معلومات کے نتیجے میں تفتیش کاروں نے 100 کے قریب افراد کے دفاتر پر چھاپے مارے جن میں کومرز بینک بھی شامل تھا۔
اس کے نتیجے میں کومرز بینک، ایچ ایس ایچ اور ہائپورنسبینک نے دو کروڑ یوروز کا جرمانہ ادا کیا۔
موساک فونسیکا نے ہر شیل کمپنی کے لیے ایک فولڈر بنایا ہوا تھا جس میں کمپنی کی ای میلز، رابطے، بات چیت، ٹھیکے اور ان کی سکین شدہ دستاویزات شامل تھیں۔
سب سے پہلے تحقیق کاروں نے سارے ڈیٹا کو بہترین کارکردگی والے کمپیوٹروں پر چڑھایا جس کےنتیجے میں فائلوں کو پڑھنے میں آسانی ملی اور انھیں ترتیب دیا گیا جس کے نتیجے میں صحافیوں کو اس سارے ڈیٹا کو گوگل کی سرچ کی طرح کھنگالنے میں مدد ملی۔
چند منٹوں میں سارے ڈیٹا کو سدھارنے کے بعد اس پر تحقیق کا کام شروع ہوا جس میں ہر سامنے آنے والے نام کے بارے میں سوالات سامنے لائے گئے کہ ان کمپنیوں میں اس فرد کا کیا کردار ہے، پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کیا سٹرکچر کیا قانونی ہے؟
Comments
Post a Comment