این اے 122 مسلم لیگ کی دھاندلی
کل میں نے کئی گھنٹے 1ین اے 122 میں گزارے۔
ایک دوست جس کا ووٹ اس حلقے میں رجسٹرڈ تھا لیکن اب وہ کافی دور شفٹ ہوچکا تھا، اسے گھر سے پک کیا تاکہ وہ اپنا ووٹ ڈال سکے۔ ساتھ دو اور دوستوں کو بھی گاڑی میں بٹھا لیا۔
11:15 پہلا جھٹکا
------------
دوست نے کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا۔ سب سے پہلے تو ہم نے مشورہ دیا کہ الیکشن کمییشن کی ایس ایم ایس سروس 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر سینڈ کرے۔ جب اس نے میسج کیا تو رپلائی میں اس کا سلسلہ نمبر اور 9 ڈیجٹ کا بلاک کوڈ آگیا لیکن یہ انفارمیشن نہیں بتائی گئی کہ اس کا پولنگ بوتھ کہاں بنا تھا۔
11:45 دوسرا جھٹکا
-----------------
ہم فیروزپور روڈ پر ڈرائیو کرتے ہوئے آگئے کہ کسی پولنگ کیمپ سے اس کے بوتھ کی معلومات لی جائیں۔ اچھرہ کے قریب ن لیگ اور تحریک انصاف کے کیمپ لگے تھے۔ ہم گاڑی روک کر پی ٹی آئی کے کیمپ میں چلے گئے۔ آگے بے چارے ینگ، ناتجربہ کار لڑکے بیٹھے تھے۔ انہیں ایس ایم ایس دکھایا تو انہوں نے اپنی لسٹیں چیک کرنا شروع کردیں۔ ان کی لسٹوں میں اس بلاک کوڈ کا نمبر درج نہیں تھا۔
انہوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ فوراً رسول پارک میں اسلم اقبال کے ڈیرے پر جائیں، وہاں سے انفارمیشن مل سکتی ھے۔
12:40 تیسرا جھٹکا
-------------------------
ہم اسلم اقبال کے ڈیرے پر پہنچے، بلاک کوڈ بتایا۔ انہوں نے دو دن پہلے کی چھپی ہوئی لسٹوں سے اس کا پولنگ بوتھ ڈھونڈا جو کہ سمن آباد میں سنٹرل ماڈل سکول کے بوتھ نمبر 4 میں تھا۔ ہم دوست کو لے کر وہاں پینچ گئے۔ دوست اندر گیا، لائن میں لگا، آدھ گھنٹے بعد جب اس کی باری آئی تو آگے بیٹھے بندے نے اس کی پرچی دیکھ کر کہا کہ اس کا ووٹ اس پولنگ سٹیشن میں درج نہیں۔ دوست نے لسٹیں دیکھیں تو وہاں اس کے سریل نمبر کے آگے کوئی اور نام درج تھا۔
13:30 چوتھا جھٹکا
-----------------------
دوست باہر آیا اور اس نے ہمیں سب روداد سنائی۔ اس وقت تک ہمیں اس حلقے میں خوار ہوتے 2 گھنٹے ہوچکے تھے۔ ہم وہاں سے سیدھے ایک اور تحریک انصاف کے کیمپ میں گئے اور انہوں بتایا کہ اسلم اقبال کے ڈیرے پر جو لسٹیں موجود ہیں، وہ غلط ہیں۔ انہوں نے فوراً نئی لسٹوں کا پیکٹ کھولا اور ایک ایک نمبر چیک کرنا شروع کردیا۔ بڑی مشکل سے دوست کا نام ایک لسٹ میں ملا۔ اس کا پولنگ بوتھ پکی ٹھٹھی کے ایک دور دراز علاقے میں کسی سپرٹ نامی پرائیویٹ سکوم میں بنا تھا۔ وہاں گئے، دوست نے ووٹ ڈالا اور باہر آگیا۔
14:25 پانچواں جھٹکا
-------------------------
ہم جس پولنگ بوتھ میں گئے، وہاں کم از کم آٹھ سے دس ایسے لوگ نظر آئے جن کے پاتھ میں بلے کے نشان کی ووٹ پرچی تھی اور جب ان کی لائن میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی باری آئی تو انہیں یہ کہہ واپس بھیج دیا گیا کہ ان کا ووٹ وہاں رجسٹرڈ نہیں۔ ان میں سے کئی لوگ یہ کہہ کر گھر واپس چلے گئے کہ اب ان کے اندر مزید خواری کرنے کی ہمت نہیں رہی۔
مورال
دھاندلی صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ ایم کیو ایم کی طرح پولنگ بوتھ کے اندر جاکر جعلی ٹھپے لگا کر اپنے ووٹ بڑھا لیں۔ دھاندلی یہ بھی ہوتی ھے کہ آپ اپنے مخالف کے اکثریتی علاقے کے ووٹروں کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیں۔ چند سوالات، جن کے جواب درکار ہیں:
- آخر الیکشن کمیشن نے ایس ایم ایس سروس میں متعلقہ پولنگ بوتھ کی انفامیشن کیوں نہیں دی؟
- الیکشن کمیشن نے دو دن پہلے پولنگ سٹیشن کی لسٹوں کو الیکشن کی رات کیوں بدل دیا؟
- تحریک انصاف والوں نے اپنے کیمپوں میں ناتجربہ کار لڑکے کیوں رکھے تھے جو بے چارے ووٹر کا پولنگ سٹیشن ہی ٹریس نہ کرسکے؟
رات بارہ بجے تک جو نتیجہ آیا اس کے مطابق ایازصادق 2400 ووٹوں سے جیت چکا تھا جبکہ ن لیگ کا ایم پی اے ہار چکا تھا۔
ن لیگ اس پورے نظام میں اپنے پنجے گاڑے بیٹھی ھے، کیا الیکشن کمیشن اور کیا نادرا۔ ہر جگہ اس کے گرگے بیٹھے ہیں۔ اس سارے نظام کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی کل کی پرفارمنس نہ صرف دھواں دھار رہی بلکہ اس نے اگلے ڈھائی سالوں کیلئے ن لیگ کی نیندیں بھی مستقل بنیادوں پر حرام کردیں ہیں۔
مجھے علیم خان کے ہارنے کا کوئی غم نہیں۔ وہ شاید کوئی قابل فخر کردار کا مالک بھی نہ ہو، مجھے خوشی اس بات کی ھے کہ کھوتے کا گوشت کھا کر اندھی ہوئی اس قوم میں بھی 72 ہزار سے زائد ایسے ووٹر تھے جو ہر قسم کے جبر کا مقابلہ کرکے باہر نکلے اور ایازصادق کو تقریباً ہرا آئے۔
آج عمران خان کی شکست پر ن لیگ سمیت پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور دوسری تمام سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں خوش ہیں۔
آج جب ان جماعتوں کو عمران خان کی مخالفت کرتے دیکھتا ہوں تو دل بے اختیار عمران خان کی حمایت کرنے کو کرتا ھے۔ عمران خان، اللہ تمہیں زندگی اور صحت دے۔
2018 انشااللہ تمہار سال ہوگا۔
کھوتے کے گوشت کا اثر جاتے جاتے ہی جائے گ...ا!!!
Comments
Post a Comment