رات کو قبرستان کا سفر

قبرستان کا سفر
ہوا یہ کہ اک رات مجھ کو ابو کی یاد نے بہت ستایا۔
میرے ابو کو فوت ہوئے سال ہو چکا ہے”اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب عطا فرمائے“
ہوا یوں کہ مجھ کو ابا جان کی بہت یاد ستانے لگی۔
اس وقت رات کے گیارہ بجے رہے تھے۔
میں چل پڑا قبرستان کی طرف، ہمارے گھر سے قبرستان تک کا فاصلہ  تین کلو میٹر تک کا ہے۔
قبرستان پہاڑ پر ہے۔
اور ہمارے گھر مشرق کی طرف ہے اور ہمارے گھر کی مغرب والی سمت کی طرف اک بڑی نہر ہیں۔
بات کہاں چلی گئی اصل بات کی طرف آتا ہوں۔
تو میں چل پڑا قبرستان کی طرف ۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا۔
دور دور تک کالی رات پہلی ہوئی تھی۔
مجھے اس وقت کسی جن بھوت کا ڈر نہیں لگ رھا تھا۔
میں جب قبرستان میں داخل تو قبریں مجھے صاف دیکھائی دے رہی تھی۔
میرے سینے سے قرآن پاک لگا ہوا تھا۔مجھے اس وقت ڈر بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ ”انسان قبرستان میں ڈر جاتا ہے“
لیکن اس وقت ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میں سیدھا اپنے والد صاحب کی قبر پر پہنچ گیا۔
میں نے زرہ اونچی آواز میں قرآن پاک پڑنا شروع کر دیا۔
قرآن پڑھتے پڑھتے ہوش بھی نا رہا کی رات کا ایک بج گیا۔
میں نے قرآن بند کر کے دعا مانگی۔
اور وہیں لیٹ گیا۔
سچ پوچیں تو جتنا سکون قبرستان میں تھا اتنا سکون کسی اور جگہ پر نہیں تھا۔
دو بجے میں قبرستان سے گھر کی طرف چل پڑا۔
آدھے گھنٹے بعد میں گھر آ گیا۔
دوستوں میری دعا ہے کہ اللہ ہر کسی کو قبرستان جانے کی  اور قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔!!!امین
قبرستان کو جانا چاہیے مرنے کے بعد ہم سب کا گھر تو وہی ہے۔
اللہ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔۔۔۔

Comments