خواجہ غلام فرید

خواجہ غلام فرید، چاچڑاںشریف، پنجاب، پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور صوفی شاعر ہیں۔ آپ کی شناخت شاعری کی صنف" کافی" ہے۔ آپ کا تعلق چشتیہ نظامیہ سلسلہ سے تھا۔

ولادت

خواجہ غلام فرید ٌ کوریجہ 26 نومبر 1845ء بروز منگل کو بہاول پور کے قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے - آپٌ کے خاندان کا نسلی سلسلہ یا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے- آپٌ کے خاندان میں ایک شخص ، جس کا نام شیخ کوربن ، حضرت شیخ پریا تھا اس لیے کور کی وجہ سے لفظ کوریجہ بن گیا- آپٌ کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا- آپٌ کے والد کا نام خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا- آپٌ چار برس کے ہوئے تو آپٌ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور جب آپٌ کی عمر آٹھ برس ہوئی تو آپٌ کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے-

تعلیم و تربیت

آپٌ نے قرآن کی تعلیم میاں صدرالدین اور میاں محمد بخش سے حاصل کی ، آپٌ نے فارسی کی تعلیم میاں حافظ خواجہ جی اور میاں احمد یار خواجہ سے حاصل کی- خواجہ غلام فریدٌ کے بزرگوں کے ایک مرید مٹھن خان جتوئی تھے ، جس کے نام سے قصبہ کوٹ مٹھن آباد ہوا- جب کوٹ مٹھن پر قابض پنجاب کے سکھ حاکم مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تو آپٌ کے والدخواجہ خدا بخش اپنے خاندان کے ساتھ کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف ، ریاست بہاول پور منتقل ہو گئے-

بہاولپور میں سکونت

جب آپٌ نواب آف بہاولپور جس کانام نواب فتح محمد جو کہ آپٌ کے والد کے مرید خاص بھی تھے کے پاس رہائش پذیر تھے تو وہاں پر بھی اساتذہ کرام موجود رہتے تھے جو آپ کو تعلیم دیتے تھے- آپٌ شاہی محل میں تقریبا" چار سال رہے-

بیعت و خلافت

جب آپٌ تیرہ برس کے ہوئے تو آپٌ نے اپنے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں سے بیعت کی- جب آپٌ کی عمر 27 برس تھی تو اس وقت آپٌ کے مرشد اور بڑے بھائیخواجہ فخر جہاںکا انتقال ہو گیا- پھر آپٌ سجادہ نشین بنے- آپٌ بڑے سخی تھے، آپٌ کے لنگر کا روزانہ کا خرچہ 12 من چاول اور 8 من گندم تھا- تقریبا" 100 سے 500 آدمی ہر وقت آپٌ کے ساتھ رہتے تھے- آپٌ کے پاس جو کچھ آتا سب شام تک غرباء و مساکین میں بانٹ دیتے تھے- آپٌ کی جاگیر سے سالانہ آمدنی 35 ہزار روپے تھی ، آپٌ انتہائی سادہ تھے- آپٌ دن میں گندم کی ایک روٹی کھاتے اور رات کو گائے کا دودھ پیتے تھے- آپٌ 18 برس روہی (چولستان) میں رہے- آپ ٌ نے اپنے مرید خاص نواب آف بہاولپور جس کا نام نواب صادق محمد رابع عباسی تھا کو نصیحت کی تھی کہ" زیر تھی ، زبر نہ بن ، متاں پیش امدی ہووی " یعنی نرمی اختیار کرو ، سختی نہ کیا کرو ، ورنہ اللہ تعالٰی تم پر بھی سختی کر سکتے ہیں-

شاعری

آپ نے شاعری بھی کی، اور آپ کا زیادہ تر کلام پنجابی زبان میں ہے- جس کا نام" دیوان فرید " ہے اس کے علاوہ اردو ، عربی، فارسی، پوربی، سندھی اور ہندی میں شاعری بھی کی ہے- اور آپٌ کا اردودیوان بھی موجود ہے- آپٌ کے پنجابی دیوان میں 271 کافیاں ہیں- آپ نے کافی کی صنف میں ایسی باکمال شاعری کی ہے کہ بلاشبہ ان کی شاعر دنیاکے عظیم ترین ادب کااثاثہ ہے۔پنجابی شاعری کو جس اعلیٰ مقام پر آپ چھوڑ کے گئے تھے۔آج بھی ان سے بہتر نہیں کہاجاسکا۔لطیف احساسات،جذبات اوراس میں وجدانی کیفیات کواس طرح ملادیناکہ شیروشکر ہوجائیں ،خواجہ کی شاعری کاادنیٰ کمال ہے۔

وصال

آپٌ کا وصال چاچڑاں شریف میں 24 جولائی 1901ء بروز بدھ ہوا- اس وقت آپٌ کی عمر 56 برس تھی.آپٌ کا ایک بیٹا حضرت خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی تھیں۔ آپٌ کا مزارکوٹ مٹھن (ضلع راجن پور) میں ہے.

نظریہ تصوف

سلسلہ چشتیہ کے عام مسلک کے مطابق آپ کا نظریہ بھی"ہمہ اوست"تھا۔یعنی آپ توحیدِ وجودی کے قائل تھے۔آپ کاتمام کلام اسی رنگ میں رنگاہواہے۔انھیں ہر رنگ اورانگ میں اللہ کے حسن کے جلوے نظرآتے۔بقول پروفیسر دل شاد کلانچوی"خواجہ صاحب عموماً حالت وجدمیں اشعارکہتے تھے۔یعنی حال وارد ہوتاتوکچھ کہتےتھے ورنہ نہیں۔ہروقت فکرِ سخن میں محورہناان کامعمول نہ تھا۔لکھنے پرآتے توالہام کی کیفیت ہوتی ۔بعض اوقات تولمبی لمبی کافیاں دس پندرہ منٹوں میں کہہ ڈالتے تھے۔"[4]

موسیقیت

اکثر کتب میں،علمااورفصحاءاورعامۃ الناس سے سنا ہے کہ آپ علم موسیقی میں خاصادرک رکھتے تھے۔آپ کو 39 راگ ،راگنیوں پر عبورتھا۔آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔جناب نشتر گوری لکھتے ہیں کہ اگر خواجہ صاحب کے کلام پرغورکیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہآپ نے سنگیت کی تمام رمزوں اورلَے تال کی تمام خوبیوں سے استفادہ کیاہے۔اکثر کافیوں میں لفظوں کے تکرارسے ایسی ہم صوتی اورہم آ ہنگی پیداکی ہے کہ ہوااورپانی کی لہریں اپنے نغمے بھول جائیں۔شعروشاعری کے اسی گن کو"Alliteration"کہتے ہیں۔ کافی ایک مشکل فن ہے۔جوعربی زبان میں توملتاہے مگردوسری زبانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

کمالِ فن

خواجہ فرید کاکلام ہررنگ ونسل،عوم وخواص،عالم وان پڑھ،خواندہ وناخواندہ اورعجم وعرب میں مشہورہے۔آپ الفاظ کے ساحر ہیں اورحافظ جیسا سوزِ عشق آپ کے کلام کاخاصہ ہے۔ امیر خسرو جیسا راگ رس کلام کی جان ہے،قآنی کا زورِ بیاں رکھتے ہیں،رومی سی تڑپ کوٹ کوٹ کرروحِ شاعری میں بھری ہے،سعدی جیسا مشاہدہ اوراسلوبِ وانداز اشعرسے ٹپکتاہے،صدیوں کے ظلسم کو اشعارمیں مقید کردیاہے۔وہ شاعرِ قال نہیں شاعرِ حال تھے۔ان کا کلام روح پر اس طرح اثر کرتاہے جیسے چشموں اورجھرنوں سے بہتاہوابھیوی راگ نہاں خانۂ دل میں اترتامحسوس ہوتاہے۔دنیامیں "الحسن" کاحسن ہے۔حسن وعشق لازم وملزوم ہیں۔"عشق اندردی پیڑ ڈاڈھاسخت ستایا"حسن کائنات کی اصل ہے باقی سب اسے کافیض وام ہے۔حسن ایک سرچشمہ ہے جہاں سے عشق،تمنا،طلب،خواہش،آرزو،امنگ،حسرت وغیرہ وغیرہ کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ کنتُ کنزاً عشق گواہی پہلے حب خودذات نوں آہی جیں سانگے تھیاجمل جہاں

ہےعشق داجلوہ ہر ہر جا سبحان اللہ سبحان اللہ

ہرصورت وچ دیدار ڈٹھم کل یارکوں اغیارڈٹھم

نمونہ کلام

میڈی اج کل اکھ پڑکاندی ہے کُئی خبر وصال آندی ہے

انکھیاں بلکن مکھ ڈیکھن کوں گل لاون کو پتھکن باہیں

وہ بہاول پور میں انگریزی اثر رسوخ کے مخالف تھے انھوں نے نواب آف بہاول پورسے کہا تھا۔ ع۔اپنے ملک کوں ٓآپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے....

دلڑی لٹی تئیں یار سجن

کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن

روہی دے کنڈڑے کالیاں

میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں

اساں راتاں ڈکھاں وچ جالیاں

روہی بنائوئی چا وطن

روہی دی عجب بہار دسے

جتھے میں نمانی دا یار ڈسے

جتھاں عاشق لکھ‍ ہزار ڈسے

اتھاں میں مسافر بے وطن

دلڑی لٹی تئیں یار سجن

کدیں موڑ مہاراں تے آ سجن

Comments