Sahir Ludhianvi (8 March 1921–25 October 1980)

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل میری ہستی ہے

پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے

اور آ کر چلے گئے

کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے

کچھ نغمے گا کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے

میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

کل تم سے جدا ہو جاؤں گا

گو آج تمہارا حصہ ہوں

کل اور آئیں گے نغموں کی

کھلتی کلیاں چننے والے

مجھ سے بہتر کہنے والے

تم سے بہتر سننے والے

کل کوئی مجھ کو یاد کرے

کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے

مصروف زمانہ میرے لیے

کیوں وقت اپنا برباد کرے

ساحر لدھیانوی پر کبھی نوجوانوں کا شاعر تو کبھی فلمی شاعر جیسے لیبل لگا کر ان کی ادبی صلاحیتیوں سے انکار کی کوشش کی گئی مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔

ساحر لدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا۔ انہوں نے بچپن اور نوجوانی میں بہت ہی سختیاں جھیلی تھیں۔ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے مگر اپنی بے توجیہی کے سبب وہاں سے نکالے گئے۔ پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا جہاں ایک معاشقے کے سبب انہیں کالج سے خارج کر دیا گیا۔ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔

ساحر لدھیانوی کا گھرانہ علمی و ادبی نہ تھا۔ نہ اسے شاعری ورثے میں ملی، نہ ان کی آنکھ کسی خوبصورت پاکیزہ ماحول میں کھلی۔ ماحول نے ان کو بے اطمینانی اور بے کیفی دی۔ وہ اس ماحول میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگے۔ معاشرے کا زہر ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا اور پھر انہوں نے اس زہر کا تریاق شاعری میں ڈھونڈا۔ اپنے نفرت کے جذبے کو تسکین دینے اور معاشرے کو اس کا کوڑھ زدہ چہرہ دکھانے کے لیے انہوں نے شاعری کا سہارا لیا جو ان کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔

ساحر مبلغ تھے نہ مصلحت پسند، مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا۔ ان کی نظم ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ان کے جذبات کی عکاس اور ان کے ماحول کے تجزیے کی بہترین نظم ہے

یہ اٹھتی نگاہیں حسینوں کی جانب

لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب

یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ

یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

ساحر کا سفر تب شروع ہوا تھا جب ان کے جاگیردار باپ نے تین چار برس کی عمر میں انہیں والدہ کے ہمراہ گھر سے نکال دیا تھا۔ ان کا باپ ایک روایتی زمیندار تھا جو اپنی زمینیں بیچ بیچ کر شادیاں کرتا تھا۔ ساحر کی زندگی کا یہ سفر لدھیانہ میں ریلوے لائن کنارے ایک چوبارے سے شروع ہوا اور بمبئی میں ساحل سمندر کے کنارے ایک فلیٹ میں ختم ہو گیا۔ بیچ کی ساری زندگی ساحر دنیا کی بھیڑ میں محبت و یقین کی پناہیں تلاشتے رہے۔

مشاہدے کی ہمہ گیری اور ماحول کے اثر نے اس میں رنگ بھرے۔

ساحر کی شاعری میں جن خصوصیات نے مجھے متاثر کیا ان میں احساس کی شدت بہت نمایاں ہے۔ میں ساحر کی خصوصیات گنوا کر اور اس کے کلام سے مثالیں پیش کر کے اس تحریر کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ ان کے کلام سے کوئی بھی نظم لے لیجیے، اس میں احساس کی گہرائی گندھی ہوئی محسوس ہو گی۔ آخر میں ساحر کے کلام سے اپنی پسند کی نظم پیش خدمت ہے۔

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی

نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے

نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے

مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں

مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی

تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ہو ناممکن

اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

Comments